شاعر نہیں، اچھے شاعر بنیے (۴)
گزشتہ سے پیوستہ۔۔۔(پچھلی قسط یہاں پڑھیں)
ایطائے خفی کیا ہے؟
ایطا کی دوسری قسم ایطاء خفی ہے۔ ایطاء خفی وہ ہے جس میں کلمۂ آخر متحد المعنی کی تکرار بادی النظر میں معلوم نہ ہو، جیسے دانا اور بینا۔ اس میں روی غیر اصلی ”الف“ کو الگ کیا تو ”داں“ اور ”بیں“ دو با معنی لفظ باقی رہ گئے لیکن یہ عیب بہت زیادہ محسوس نہیں ہوتا۔ اس لیے یہ ایطاء خفی کہلاتا ہے۔
ایطاء خفی دراصل قافیے کے آخر میں مشترک حروف کی وجہ سے محسوس ہوتا ہے، جس میں قافیے کی تکرار اعلانیہ ظاہر نہیں ہوتی۔ مثالوں سے سمجھیے۔ غور سے پڑھیں، کیونکہ ہر مثال میں آپ ایک نئی بات پائیں گے۔
مثال ۱: غالبؔ کا یہ شعر دیکھیں:
بس کہ دشوار ہے ہر کام کا آساں ہونا
آدمی کو بھی میسر نہیں انساں ہونا
آسان، انسان: آسان اور انسان دونوں ایک لفظ ہیں، کوئی ترکیب نہیں۔ یہاں روی ”ن“ ہے۔ لیکن چونکہ دونوں جگہ آخر میں ”سان“ آیا ہے، اس لیے بادی النظر میں ”آ“ اور ”ان“ کو ہم قافیہ نہ دیکھنے کی وجہ سے ایک خلش سی محسوس ہوتی ہے۔ یہی ایطاء خفی ہے۔
مثال۲: غالبؔ ہی کا یہ شعر دیکھیں:
حیراں ہوں دل کو روؤں کہ پیٹوں جگر کو میں
مقدور ہو تو ساتھ رکھوں نوحہ گر کو میں
جگر، نوحہ گر: یہاں روی ”ر“ ہے۔ لیکن اس سے پہلے ”گ“ کی تکرار دونوں مصرع میں ہوئی ہے۔ چنانچہ قاری یہ توقع کرتا ہے کہ آگے بھی ہر قافیہ میں ”گر“ کی قید ہوگی۔ لیکن دیگر قوافی(گژر، کمر، گھر) اس پر پورے نہیں اترتے اور صرف روی ”ر“ کا خیال رکھتے ہیں۔ چنانچہ یہاں ایطاء خفی ہے۔
اسی عیب کو دوسرے انداز میں "مطلع میں لگائی گئی قید کو توڑنا" کے بطور بھی ایڈرس کیا جاتا ہے جو اسی کے ذیل میں آتا ہے۔
اسی عیب کو دوسرے انداز میں "مطلع میں لگائی گئی قید کو توڑنا" کے بطور بھی ایڈرس کیا جاتا ہے جو اسی کے ذیل میں آتا ہے۔
مثال ۴: الفاظ ہند ص ۲۴ اپریل ۲۰۱۶
گلگلا میں اپنے بارے میں پکاتا رہ گیا
ان کی شادی ہو گئی میں سر کھجاتا رہ گیا
ردیف: رہ گیا
دیگر قوافی : بورا، پٹھا، دھندا، لیٹا، اکیلا
مطلع میں "پکاتا" اور "کھجاتا" قافیوں کی وجہ سے قاری سمجھتا ہے کہ "تا" ردیف کا حصہ ہے اور الف روی والے قافیے پکا،کھجا وغیرہ آنے والے ہیں۔
دیگر قوافی : بورا، پٹھا، دھندا، لیٹا، اکیلا
مطلع میں "پکاتا" اور "کھجاتا" قافیوں کی وجہ سے قاری سمجھتا ہے کہ "تا" ردیف کا حصہ ہے اور الف روی والے قافیے پکا،کھجا وغیرہ آنے والے ہیں۔
نچوڑ
مطلع میں قافیوں کا استعمال بہت سوچ سمجھ کر کیجیے، کیونکہ اسی میں پوری غزل کے قافیے ”طے“ ہو جاتے ہیں۔ آپ نے اوپر کی جتنی مثالیں دیکھیں، ان میں اکثر کا اختلاف مطلع کے قافیوں سے تھا۔
ایطاء جلی بالاتفاق قطعی طور پر عیب تصور کیا جاتا ہے کیونکہ یہ سماعت پر ناگوار گزرتا ہے۔ لیکن چونکہ ایطاء خفی میں تکرارِ زوائد صریح نہیں ہوتی، اس لیے اس کے جائز یا ناجائز ہونے میں اختلاف ہے۔
بقول حسرتؔ موہانی ”ایطاء خفی سے بچنا بہتر ہے، لیکن اس کو معیوب اور متروک سمجھنا نہ مناسب ہے نہ صحیح۔“
نوٹ: ایطاء جلی عموماً تبھی ہوتا ہے جب قافیہ میں مرکب الفاظ استعمال کیے گئے ہوں، یعنی ان میں کوئی لاحقہ Suffix موجود ہو۔ اس کے نام ہی سے ظاہر ہے، کہ یہ ایک بڑا عیب مانا گیا ہے۔
٭ قوافی کا عیب نمبر ۲۔ اختلافِ روی یا حرف ماقبل روی ساکن
یہاں دو عیوب میں نے سمیٹ دیے ہیں۔ دونوں کے لیے الگ الگ اصطلاحات ہیں(پتہ نہیں کیا ضرورت تھی)ان اصطلاحات کو بھی ساتھ ہی ذکر کر دیتا ہوں تاکہ ”سند رہے اور بوقتِ ضرورت کام آوے۔ “
(۱)روی تو آپ جانتے ہیں۔ قافیے کے آخر میں آنے والے حرف کو روی کہتے ہیں۔ اگر آپ نے دو قافیے ایسے استعمال کیے جن میں روی کا اختلاف ہے، تو اختلافِ روی کا عیب کہلائے گا جسے اصطلاح میں ”اکفا“ کہتے ہیں۔ جی ہاں! اصطلاحات سنیے اور سر دھنیے۔ ذیل میں اس کی مثالیں دیکھیں۔
روی کے اختلاف کا عیب(اکفا): ۱۔شک اور سگ ۲۔ سیاہ اور مباح
پہلی مثال میں حروفِ روی بالترتیب ک اور گ ، دوسری مثال میں ہ اور ح ہیں۔ روی کے اختلاف کا صاف مطلب ہے کہ یہاں روی طے ہی نہیں ہوا۔ اور بغیر حرفِ روی کے قافیہ ہو ہی نہیں سکتا۔
(۲)روی کے پہلے کا حرف جو ساکن ہو، اگر ا ن میں اختلاف ہو تو یہ قافیے کا عیب کہلائے گا جسے اصطلاح میں ”سناد“ کا نام دیا گیا ہے۔(دیا گیا ہو، میری بلا سے!) صبر اور قہر میں ”ب“ اور ”ہ“روی سے پہلے ہیں، ساکن ہیں اور مختلف ہیں۔ چنانچہ یہاں سناد کا عیب ہے۔ دیگر مثالیں
حرف ماقبل روی (ساکن) کا اختلاف (سناد): ۱۔ چال، ڈھال، خیال کے ساتھ مول، تول یا ڈھیل، نیل وغیرہ۔۲۔ نار اور نور۳۔ راست اور کاشت ۴۔ رکاب اور شکیب
یہ دونوں عیب آپ نے پڑھ لیے۔ اب ایک فتوی بزبان شمس قیس سن لیجیے۔
”اگر یہ عیب شعر میں موجود ہے تو آپ کا شعر، شعر کہلانے کے لائق نہیں ہے۔“
”اگر یہ عیب شعر میں موجود ہے تو آپ کا شعر، شعر کہلانے کے لائق نہیں ہے۔“
پڑھ لیا ہو تو مسکرائیے! کون پاگل ہے جو اختلافِ روی کے بعد الفاظ کو ہم قافیہ سمجھتا ہے۔ آپ کو تو یہ پہلے سے معلوم تھا کہ ”روی“ نہ ہو تو قافیہ ہی نہیں ہوتا۔ تو یہ دونوں عیوب گنانے کی کیا ضرورت تھی بھلا؟ جی جناب! آپ کی بات درست ہے، لیکن آج کل کے نام نہاد ”شاعروں“ کو یہ بتانا ضروری تھا۔ اور پھر، بڑوں کا ”آدیش“ بھی تو ماننا پڑتا ہے، جب اساتذہ نے انہیں عیوب میں شامل کیا ہے تو ہم کیسے نکال سکتے ہیں!
معلومات کے لیے بتاتا چلوں کہ شعرائے عرب نے ”سناد“ کو جائز رکھا ہے، نیز بعض شعرائے فارس نے بھی بصورتِ امالہ اسے جائز رکھا ہے(جیسے رکاب کو رکیب بنا کر شکیب کے ساتھ قافیہ رکھا ہے)۔ لیکن ان کے نزدیک بھی اختلافِ روی (اکفا)قطعاً درست نہیں۔ اور ہمارے نزدیک دونوں ہی پر ”کفر“ کا فتویٰ ہے، یعنی دونوں ہی قطعاً ناجائز ہیں۔
معلومات کے لیے بتاتا چلوں کہ شعرائے عرب نے ”سناد“ کو جائز رکھا ہے، نیز بعض شعرائے فارس نے بھی بصورتِ امالہ اسے جائز رکھا ہے(جیسے رکاب کو رکیب بنا کر شکیب کے ساتھ قافیہ رکھا ہے)۔ لیکن ان کے نزدیک بھی اختلافِ روی (اکفا)قطعاً درست نہیں۔ اور ہمارے نزدیک دونوں ہی پر ”کفر“ کا فتویٰ ہے، یعنی دونوں ہی قطعاً ناجائز ہیں۔
٭ قوافی کا عیب نمبر ۳۔ حرکت ماقبل روی کا اختلاف یا حرف ماقبل روی ساکن کے پہلے کی حرکت کا اختلاف
اصطلاح میں اسے اقوا کہتے ہیں۔ اصطلاح یاد رکھنے کی کوئی ضرورت نہیں، بس مطلب سمجھ لیں۔ اوپر بیان کیے گئے عیوب ”اکفا“ اور ”سناد“ ہی کی طرز پر سمجھیں۔ فرق بس اتنا ہی ہے کہ وہاں ”حروف“ کا اختلاف تھا، یہاں ”حرکات“ کا اختلاف ہے۔
چنانچہ اگر روی سے قبل کی حرکت اگر بدل جائے تو یہ عیب قرار پائے گا۔ ایطا کے تحت مثال نمبر ۵ میں یہ گزر چکا ہے۔
مثلاً ”بدل “کے ساتھ ”گھُل“ قافیہ نہیں ہو سکتا۔ کیونکہ بدل میں روی(ل) سے پہلے ”زبر“ ہے اور ”گھل“ میں ”پیش“ ہے۔
اسی طرح، اگر روی سے پہلے والا حرف ساکن ہو، تو اس ساکن کے پہلے کی حرکت دیکھی جائے گی، اور اس کا اختلاف عیب شمار ہوگا۔
مثلاً ”رشک“ کے ساتھ ”خشک“ قافیہ نہیں ہو سکتا۔ اس میں روی ”ک“، اور حرف ماقبل روی ”ش“ ہے، لیکن رشک میں ”ش“ ساکن سے پہلے ”زبر“ ہے اور ”خشک“ میں ”پیش“ ہے۔
یہ بھی سخت عیب میں شمار ہوتا ہے۔ یعنی وہی جناب شمس قیس والا ”فتویٰ“ یہاں بھی لاگو ہوتا ہے۔
٭ قوافی کا عیب نمبر ۴۔ و /ی معروف و مجہول کا قافیہ
قوی امید ہے کہ آپ اس ”معروف“ اور ”مجہول“ کی اصطلاح سے واقف ہوں گے۔ پھر بھی سرسری طور پر ذکر کرتا چلوں۔ واؤ معروف اسے کہیں گے جس میں و کی آواز پوری طرح ادا ہو، اس میں ہونٹ سکڑ جاتے ہیں۔ مثلاً دور، طور وغیرہ۔ واؤ مجہول میں و کی آواز پوری طرح ادا نہیں ہوتی، بس ہونٹ گول کر دیتی ہے۔ مثلاً کوہ، شور وغیرہ۔
اسی طرح یائے معروف اور یائے مجہول کو قیاس کر لیجیے۔ یائے معروف کی مثالیں: قریب، نصیب وغیرہ۔ یائے مجہول کی مثالیں: جیب، فریب
مثالیں دیکھیے۔
مثال۱۔ شاہ حاتم کا شعر
کیا اس کی صفت میں گفتگو ہے
جیسا تھا وہی ہے جو ہے سو ہے
وضاحت: گفتگو میں واو معروف ہے، سو میں واو مجہول ہے۔
مثال ۲۔ میر حسنؔ
مجھے بھیجا ہے اس نے کام کو مدت میں آج اپنے
کوئی اس دم مجھے دیکھے کہ کیا مغرور جاتا ہوں
گلی میں اس کی آمد شد حسن خالی نہیں غم سے
دلِ پر درد آتا ہوں سرِ پر شور جاتا ہوں
وضاحت: مغرور میں واو معروف ہے، پر شور میں واو مجہول ہے۔
مثال ۳۔ قائمؔ
کوئی مختار کہا یا کوئی مجبور ہمیں
ہم سمجھتے ہیں جہاں گک کہ ہے مقدور ہمیں
پاؤں بھی اپنے ٹھہرتے نہیں مانند سرشک
دیکھیں، لیجائے کدھر یہ سرِ پر شور ہمیں
وضاحت: مقدور میں واو معروف ہے، پر شور میں واو مجہول ہے۔
مثال ۴۔ غالبؔ
گئی وہ بات کہ ہو گفتگو تو کیونکر ہو
کہے سے کچھ نہ ہوا پھر کہو تو کیونکر ہو
وضاحت: گفتگو میں واو معروف ہے، کہو میں واو مجہول ہے۔
مثال ۵۔ سالکؔ
جوش ہے دل سے لبوں تک نالۂ پر شور کا
پھ مرے سینے میں ماتم ہے دلِ مغفور کا
وضاحت: پر شور میں واؤ مجہول ہے، مغفور میں واؤ معروف ہے۔
مثال ۶۔ میر سوزؔ
اے نگہتِ گل جائیو محفل میں کسی کی
ٹک دل کو مرے ڈھونڈیو تو دل میں کسی کے
وضاحت: کی میں یائے معروف ہے، کے میں یائے مجہول ہے ۔
مثال ۷۔ ذکیؔ دہلوی
عطا کر اپنے کرم سے وہ خاطرِ ہموار
کہ ایک حال فراز و نشیب ہو یا رب
شبِ فراق میں ہر دم ہے یہ دعائے ذ کیؔ
وصال وصلِ صنم میں نصیب ہو یا رب
وضاحت: نشیب میں یائے مجہول ہے، نصیب میں یائے معروف ہے۔
مرزا یاس صاحب اس بارے میں چراغِ سخن ص۸۱ پر فرماتے ہیں۔
” ایسے قافیوں میں واؤ معروف اور واؤ مجہول، یائے معروف اور یائے مجہول کا اجتماع شعرائے متقدمین و متأخرین کے کلام میں اکثر پایا جاتا ہے جیسے نور کا قافیہ گور، تاخیر کا قافیہ دیر۔ مگر آجکل زبان اردو میں ایسے قافیوں کا ترک اولیٰ ہے۔“
و/ی معروف اور مجہول کے قافیے پہلے استعمال ہوتے تھے، لیکن اب درست فیصلہ کرتے ہوئے اسے ترک کر دیا گیا ہے۔ ویسے بھی قافیے کا تعلق صوت یا آواز سے ہے۔ اگر آواز ایک نہیں پیدا ہو رہی(اور یقیناً نہیں ہو رہی)تو اسے بطور قافیہ استعمال کرنا زبردستی ہے۔
٭ قوافی کا عیب نمبر ۵۔ صوتی قوافی
صوت ، آواز کو کہتے ہیں۔ چونکہ اردو میں ہم عربی کی طرح ”س اور ص“، ”ز، ظ، ض اور ذ“ وغیرہ کے الگ مخرج نہیں نکالتے اور سبھی ایک ہی آواز رکھتے ہیں، چنانچہ بعض شعراء کرام ان کو بطور روی استعمال کرنا درست سمجھتے ہیں۔
مثلاً: باز، ریاض اور لحاظ۔ تھوڑا اور آگے بڑھ کے بعض اور وعظ(کہ اردو میں الف اور ع کو بھی یکساں ادا کیا جاتا ہے)
اس پر اختلاف پایا جاتا ہے، اور تو تو میں میں ہوتی رہتی ہے۔ ذاتی طور پر فقیر اس کے جواز (بسبب زبان اردو)قائل ہے، لیکن پھر بھی احتیاطاً اس کے ترک ہی کو اولیٰ سمجھتا ہے۔
آگے آپ کی مرضی! ویسے اگر آپ قادر الکلامی کے کوشاں(یا مدعی) ہیں تو اس کے ترک سے آپ کی صحت پر کوئی فرق نہیں پڑنا چاہیے۔
مشق عیب نمبر ۲:عیوبِ قافیہ
مشق۲۔۱: ایطا
۱۔ آپ کے زیر مطالعہ رسالوں کے پچھلے شماروں میں سے ایسے اشعار تلاش کیجیے جن میں ایطا کا نقص ہے۔
۲۔ کیا علامہ اقبالؔ کی مشہور نظم ”سارے جہاں سے اچھا ہندوستاں ہمارا“ کے پہلے شعر(مطلع) میں ایطا کا نقص ہے؟ عیب کے ہونے یا نہ ہونے کو وجوہات کے ساتھ واضح کیجیے۔ لفظ ہندوستاں کو مرکب یا مفرد ماننے پر ایطا خفی رہتا ہے یا جلی؟
نوٹ: مشق کے جوابات فقیر کے ای میل یا بلاگ کے منٹ میں ارسال کیے جا سکتے ہیں۔
نوٹ: مشق کے جوابات فقیر کے ای میل یا بلاگ کے منٹ میں ارسال کیے جا سکتے ہیں۔
(جاری)
آپکی اس تحریر سے بہت کچھ سیکھنے ملا بہت کچھ۔ آپکا شکریہ کہ آپ نے یہ تحریر کیا اور ہمیں عیوبِ سخن سے آگاہ کیا۔ آپکا بہت بہت شکریہ اور اگلی قسط کب آئے گی؟
جواب دیںحذف کریںجزاک اللہ! اگلی قسط ذرا جھاڑ پونچھ کر اسی مہینے ان شاء اللہ حاضر کرتا ہوں۔
حذف کریںجناب میں یہ جاننا چاہتا ہوں کہ جو الفاظ ہائے مختفی پر ختم ہوتے ہیں ان میں روی کی پہچان کیسے ہوگی۔ مزید، اگر مطلع میں طریقہ اور قرینہ قافیہ لائے گئے تو کیا بقیہ اشعار میں کوئی بھی لفظ جو ہائے مختفی پر ختم ہوتا ہو جیسے لمحہ، غنچہ وغیرہ بطورِ قافیہ لائے جا سکتے ہیں۔ آج کل یہ عام ہوگیا ہے کہ الف، ہ اور ہائے خفی پر ختم ہونے والے الفاظ جیسے صحرا، جلوہ، شیشہ وغیرہ ہم قافیہ مانے جاتے ہیں۔ کیا یہ درست ہے؟ اصولوں کی روشنی میں وضاحت فرمائیں۔
جواب دیںحذف کریںعبدالسلام بنگلوری، بنگلور، انڈیا۔
اردو شاعری کی پرانی روایت ہے کہ الف اور ہ بطور روی ہم صوت ہونے کی وجہ سے قافیے میں درست مانے جاتے ہیں اور یہی درست بھی ہے۔ چنانچہ آجکل کی بات نہیں۔
حذف کریںہاں میرا موقف ہے کہ ان الفاظ میں قافیہ جتانے کے لیے الفاظ کا املا بدلنا نہیں چاہیے (میری مرتب کردہ ”غزلیاتِ اقبال“ میں موجود حواشی دیکھیے)
رہی بات مطلع میں دونوں قافیوں کے ہ پر ختم ہونے کی، تو چونکہ مطلع قید لگاتا ہے، اس لیے بعد کے اشعار میں الف بطور روی آنا اٹپٹا لگے گا۔ ناجائز تو کوئی نہیں کہتا، بس ذوق کی بات ہے۔ میری غزل ہو تو تمام قوافی ہ والے رکھوں!
Well my to galti sy e tpk pri thi apki post pr .. but learnt alot.. thnx ❤
جواب دیںحذف کریں