شاعر نہیں، اچھے شاعر بنیے (۵)

گزشتہ سے پیوستہ۔۔۔(پچھلی قسط یہاں پڑھیں)

عیب نمبر ۳: حشو (بھرتی)

یعنی ایسے الفاظ جنہیں استعمال نہ بھی کریں تو معنی پر کوئی فرق نہیں پڑتا۔ 

سادہ زبان میں تو اسے ”بھرتی “ یا ”غیر ضروری الفاظ گھسیڑنا“ کہتے ہیں، اور اگر آپ کو اپنے علم کی دھاک بٹھانی ہے تو ”حشو“ کہیے۔ یعنی بجائے ”آپ کے اشعار میں سے  بھرتی کے الفاظ دور کریں“، یوں کہیے، ”آپ کے اشعار کو حشو و زوائد سے پاک کریں۔“

اس طرح لوگوں کو کچھ سمجھ میں بھی نہیں آئے گا اور وہ  آپ سے متاثر بھی  ہو جائیں گے۔ میں یہی کرتا ہوں۔ 

بہرحال، یہ بھرتی دو طرح کی ہوتی ہے، لفظی اور معنوی۔  پھر کبھی محض یک دو لفظی حشو ہوتا ہے، اور کہیں  پورے پورے شعر بھرتی کے ہوتے ہیں۔ دونوں معاملوں کو علیحدہ علیحدہ دیکھتے ہیں۔

الفاظ کی بھرتی

زیادہ تر یہی دیکھنے کو ملتی ہے۔ آپ شاعر ہیں تو اسے آسانی سے سمجھ سکیں گے۔ شعر لکھتے وقت بعض اوقات پورا مصرع بالکل زبردست بن جاتا ہے لیکن  وزن کے حساب سے کوئی ایک  رکن کم پڑ جاتا ہے۔ مثلاً کوئی ایک ہجائے بلند کم پڑ گیا، کبھی محض یک حرفی خلا باقی رہ گیا وغیرہ۔ ایسی جگہوں پر آپ نے آنکھ بچا کر یہ الفاظ گھسیڑ دیے:

بھی، یہ ، وہ، اے، ہے، تھا، اور، ہاں، ہائے، یارو

اسی کو بھرتی کہتے ہیں۔ اس حصے کا مقصد ہے کہ آپ کی شاعری بھرتیوں سے پاک ہو جائے۔ آپ خیال کو واضح اور ستھرا رکھیں، اور اس کے ابلاغ کے بیچ آنے والے ہر غیر ضروری لفظ کو ہٹا دیں۔ یوں سمجھیں کہ آپ بات کو دو ٹوک، concise رکھنا چاہ رہے ہیں۔ 

واضح رہے کہ اس کا یہ مطلب نہیں کہ طویل بیانیہ یا منظر نگاری نا درست ٹھہری، ہرگز نہیں۔ آپ شوق سے محبوب کے محض گیسوؤں پر ڈھائی تین سو اشعار لکھیں،  یا مرثیے میں صرف جنگ کی منظرکشی پر صفحہ در صفحہ لکھتے چلے جائیں۔ اصل معاملہ ہے کہ ان ڈھائی تین سو اشعار میں بھی کوئی لفظ اضافی نہ ہو۔

اشعار کی بھرتی

بعض اوقات پورا پورا شعر ”ایویں ہی“  سا ہوتا ہے۔ ذاتی اصطلاح میں اس کو میں ”پھیکا شعر“ کہتا ہوں۔ ایک پھیکے شعر میں یہ ”خصوصیات“ ہو سکتی ہیں۔

  • بہت بار کا گھسا پٹا مضمون  بغیر کسی انوکھے پن یا حسنِ ابلاغ کے استعمال ہونا
  • شعر میں کوئی خاص بات نہ ہونا
  • محض ردیف یا قافیہ نبھانے کے لیے شعر کہنا
  • غزل کے ماحول سے ایکدم ہٹ کر شعر کہنا

سوچیے، کسی  خوبصورت sophisticated سی شاعری کے بیچ میں لفظ ”پھٹیچر“ آجائے تو آپ کو کیسا لگے گا؟ 

وہی کیفیت اگر آپ کی غزل پڑھتے ہوئے کسی شعر کے پڑھنے  سے پیدا ہو تو وہ پورا شعر القط کر دینا ثواب کا کام ہے۔

شاعری میں ”حشو“ کی وجوہات

اسی سے نوے فیصد لوگ اس میں اس لیے مبتلا ہیں کہ انہیں بس وزن پورا کرنا تھا اور مجبوراً ایک لفظ گھسیڑنا پڑ گیا۔ بقیہ اپنی کاہلی سے خوش ہیں۔ 

اور ایک طبقہ وہ ہے جو اپنے آپ کو ان سب جھنجھٹوں سے اوپر سمجھتا ہے کیونکہ انہیں دوسروں کی اصلاح کرنی ہے، اپنی نہیں، چنانچہ  مختلف ”تسلیوں “سے دل بہلاتے ہیں۔ 

اگر آپ اب بھی یہ پڑھ رہے ہیں تو اس کا مطلب ہے آپ  جھوٹی انانیت کے پیچھے اپنی شاعری برباد ہوتی نہیں دیکھنا چاہتے اور  واقعتاً  اپنی اصلاح کرنا چاہتے ہیں۔ الحمد للہ کہیے۔ کیا ہی بات ہے آپ کی! کبھی  رونمائی کروائیے،  فی زمانہ ایسے فرشتے کم ہی دیکھنے کو ملتے ہیں۔

مثالیں

امید ہے حشو کا مطلب سمجھ میں آ گیا ہوگا۔ بلکہ ایسا کہ شاید آپ کو اپنے ہی اشعار میں موجود اضافی الفاظ کھٹکنے لگے ہوں گے۔ اگر ابھی اس مقام تک نہیں پہنچے ہیں تو چند مثالوں سے ”بھرتی“ اچھی طرح سمجھ لیں تاکہ کھٹکھٹاہٹ شروع ہو سکے۔

مثال ۱

عیشؔ :

پکڑا ہے کلیجہ کبھی دل تھام لیا ہے

چتون بھی غضب ہائے قیامت ہے نظر بھی

دوسرا مصرع دیکھیے۔ بھرتی پکڑ میں آئی؟   بالکل الگ سے سمجھ میں آ رہا ہے کہ لفظ ”ہائے“ خوامخواہ ہی ڈال دیا گیا ہے اور اس سے شعر میں کوئی بامعنی اضافہ نہیں ہوتا۔

 چنانچہ اصلاح میں ضامن علی جلال لکھنوی نے مصرع یوں کر دیا:

چتون بھی وہ ہے قہر، قیامت ہے نظر بھی

حشو بھی ختم اور موسیقیت بھی باقی۔ قہر اور قیامت کو ساتھ پڑھنے میں بھلا محسوس ہوتا ہے۔

ہم اور آپ ہوتے تو اس ”ہائے“ کی بھرتی نکال کر کوئی دوسرا  لفظ  بھرتی کر دیتے۔ سوچیے بھلا کون سا! جی، معلوم تھا آپ بھی سب سے پہلے وہی لفظ سوچیں گے۔


مثال ۲

عاجز ؔ:

بے سروسامانیاں میری نہ پوچھو عشق میں

ساکنِ صحرا ہوں دیکھو خانہ ویرانی مری

دوسرے مصرع میں دو بھرتیاں ہیں۔ ایک لفظی، ایک معنوی۔ 

لفظی :”دیکھو“ برائے بیت لایا گیا ہے۔ 

معنوی : ساکنِ صحرا بتا دینے کے بعد خانہ ویرانی تو لازم ہے۔ بلکہ آپ محسوس کریں تو  ”ساکنِ صحرا“ سے جو تگڑا تاثر ابھرتا ہے، وہ ”خانہ ویرانی“ کے استعمال نے پھیکا کر دیا۔ 

چنانچہ احسن مارہروی نے اصلاح کی:

خاک چھنواتی ہے گھر گھر خانہ ویرانی مری

کیا ہی اچھی اصلاح ہے۔ 


مثال ۳

انصافؔ:

دلِ بیتاب سیدھی سانس لے سکتا نہیں یا رب

قیامت ڈھا چکیں بانکی ادائیں حسن والوں کی

مصرعِ اولیٰ میں ”یا رب“ بھرتی کا ہے۔ ایسی جگہوں پر ہی سب سے زیادہ بھرتیاں ہوتی ہیں، کیونکہ بات مکمل ہو چکی ہے اور مصرع کا وزن  ابھی پورا نہیں ہوا۔ چنانچہ ذاتی تجربہ ہے کہ   ایسی جگہوں پر احباب ایسے  الفاظ کثرت سے استعمال کرتے ہیں، مصرع میں لگا لگا کر پڑھیے: ”لوگو، پیارے، بالکل، ہائے، ہرگز“۔ باقی کے الفاظ آپ سوچ لیں۔

نوحؔ ناروی نے اس پر یوں اصلاح دی:

دلِ بے تاب سیدھی سانس بھی اب لے نہیں سکتا

قیامت ڈھا گئیں بانکی ادائیں حسن والوں کی

مصرع اولی میں تبدیلی کی وجہ اوپر آ گئی۔  ثانی میں موجود تبدیلی کا تعلق فصاحت سے ہے۔ جتنا مطالعہ زیادہ ہوگا، اتنی آپ کی زبان فصیح ہوتی جائے گی۔


مثال ۴

آبادؔ لکھنوی:

تیری دوری سے کسے وحشت نہیں اے رشکِ گُل

گل نے ٹکڑے کر دیا اپنا گریباں باغ میں

ناسخؔ نے اس پر یوں اصلاح دی:

گل نے ٹکڑے ٹکڑے کر ڈالا گریباں باغ میں

مصرع ثانی میں ”اپنا“ بیکار ہی سا تھا۔ نہ بھی ہوتا  تو فرق نہ پڑتا۔ پھر ٹکڑے ٹکڑے کی تکرار نے پہلے مصرع میں مذکور ”وحشت“ کے اثر کو دوچند کر دیا۔ لہجہ توانا ہو گیا۔

یہاں یہ بھی پتہ چلا کہ لفظ کی  تکرار سے شعر میں ہمیشہ عیب واقع نہیں ہوتا، بلکہ صنعت کے طور پر بھی استعمال ہوتا ہے۔  محاسن سخن میں آگے اس کا مزید ذکر ہوگا۔


انہی کا ایک اور شعر ہے:

ہجر میں وصل کو ہم یاد کیا کرتے ہیں

شاد اپنا دلِ نا شاد کیا کرتے ہیں

اصلاح: شاد یونہی دلِ نا شاد کیا کرتے ہیں

 پہلے مصرع میں ”ہم“ کہہ دیا ہے تو ظاہر ہے دل تو اپنا ہی ہوگا۔ 

لفظ اپنا کی جگہ ”یونہی“ نے خیال کو پہنچانے میں مدد کی اور اس کا استعمال بے مقصد نہیں ہوا۔


مثال ۵

شوق سندیلوی :

چمن کی سیر سے کیا خاک اپنا جی بہلے

کہ ہم یہاں ہیں مگر دل تو کوئے یار میں ہے

دوسرے مصرع میں ”مگر“ اور خصوصاً ”تو“ بھرتی کے ہیں۔ چنانچہ فانیؔ بدایونی نے یوں اصلاح کی:

کہ ہم چمن میں ہیں، دل اپنا کوئے یار میں ہے


مثال ۶

شوقؔ:

دل میرامجھی کو پھیرتا جا

ظالم ترے کام کا نہیں ہے

لفظ ظالم محض مصرع پورا کرنے کے لیے استعمال ہوا ہے۔ آرزوؔ لکھنوی نے مصرع ثانی کو یوں کر دیا:

جب یہ ترے کام کا نہیں ہے


مثال ۷

صابرؔ:

انقلاباتِ زمانہ کا تاثر دیکھ کر آج شمعِ بزمِ عشرت سر بسر خاموش ہے

دل شاہجہانپوری کی اصلاح:

شمعِ بزمِ عیش و عشرت سر بسر خاموش ہے

میری رائے میں یہاں ایک الگ اصول کے تحت اصلاح کی گئی ہے، حشو والی کوئی بات نہیں۔ وہ اصول ہے تعمیم کا، یعنی شاعری میں چیزوں کو universal آفاقی بنانے کی کوشش کی جانی چاہیے۔ (محاسنِ سخن میں اس پر تفصیلی گفتگو ہوگی۔)چنانچہ لفظ ”آج“ سے  پیدا ہو جانے والی غیر ضروری تخصیص کو تعمیم سے بدل دیا گیا۔ 

جو چیز حشو سے متعلق ہے جس کی طرف توجہ دلانی مقصود ہے، وہ ہے ”عیش و عشرت“ کا استعمال۔ یہاں لگتا یوں ہے کہ عیش کے بعد عشرت اضافی ہو گیا، لیکن جیسا کہ اوپر بھی گزرا، کبھی حسنِ  ابلاغ کے لیے تکرار مستحسن ہوتی ہے۔ آپ خود ہی پڑھ کر دیکھیں۔ 

یہ بھی کوئی بات ہوئی

اب ہو سکتا ہے آپ کو یوں لگے کہ یہ بہت زیادہ باریکیاں دیکھی جا رہی ہیں، اور پتہ نہیں اب آپ دوسروں کی شاعری کا مطلب بھی سمجھیں گے یا محض حشو و زوائد ہی ڈھونڈتے رہیں گے۔ اگر ایسی کیفیت آپ پر طاری ہو گئی ہے تو یہی ہمارا مقصد تھا۔ اب آپ جب بھی شاعری لکھیں، اس کی بال کی کھال نکال کر دیکھیں کہ کہیں اس میں کوئی لفظی یا معنوی ”بھرتی“ تو نہیں۔

ہو سکتا ہے اس سے آپ کے شعر لکھنے کی رفتار کم ہو جائے، اور آپ مجھے کوسنے لگیں۔  لیکن پھر فضولیات سے پاک اپنی شاعری پڑھ کر جب خوش گوار حیرت ہو تو دعاؤں سے ان کوسنوں کا ازالہ کرنا نہ بھولیں۔ 

اس عیب پر توجہ کیوں  نہیں دی جاتی

میں نے سب سے زیادہ اصلاح طلب جو چیز سب پوچھنے والوں میں  مشترک پائی ہے، وہ یہی بھرتی والا عیب ہے۔ حیرت یہ ہے کہ بار بار اصلاح اور توجہ دلانے کے باوجود بھی اس پر قابو نہیں پایا جاتا۔ 

پھر تجاویز لے کر دوسرے دن نیا کلام اور اس میں بھی وہی ایک عیب نمایاں۔ کیا کیجے!

بقول مجذوبؒ:

اتنا بھی کوئی ہوگا نہ صبرآزمائے دل

میری رائے میں اس کی ایک وجہ تو یہ ہے کہ ان کے پاس شاعری کی کوئی معقول وجہ نہیں ہوتی۔ بس لکھ رہے ہیں ۔ خیر مقصدیت ایک الگ موضوع ہے جس پر ان شاء اللہ  آئندہ لکھنے کا ارادہ بھی ہے،لیکن یہ وجہ کارفرما  اس لیے لگتی ہے کہ اگر مقصد ہو تو پھر یوں غلطیوں کو نظر انداز نہیں کیا جاتا۔ 

خوب سارے اشعار لکھے،  وزن کو جیسے تیسے  بھرتی کے الفاظ سے پورا کیا اور خود کو یوں تسلی دی:

  • پڑھنے والوں کو کون سا پتہ چلنا ہے
  • سب چلتا ہے
  • اصل تو ابلاغ ہے، بات تو پہنچ رہی ہے
  • اتنا کون دیکھتا ہے
  • میری نیت قوم بیداری کی ہے، چنانچہ شبد نہ دیکھو، بھاؤناؤں کو سمجھو،  وغیرہ وغیرہ!

میرا کہنا ہے کہ پیارے! بھاؤناؤں کو سمجھانے کے لیے شبد ضروری ہوتے ہیں۔  ذرا کلیاتِ اقبال اٹھا کر دیکھیے، وہ ہاتھ کی خطاطی کیا ہوا  زرد سرورق والا نسخہ۔ اس میں اقبال کی اپنی ہینڈ رائٹنگ میں کچھ اشعار ہیں۔ اقبال کی بیاض کی ان تصاویر پر کچھ ا صلاحات ہیں، خود اقبال کی اپنے قلم سے کی گئی اصلاحات۔ غور سے دیکھیے۔ کہیں ایک لفظ کو کاٹ کر دوسرا لفظ لکھا ہوا ہے، کہیں  مکمل مصرع القط کیا ہوا ہے۔  

تعجب ہوا؟ آپ کا کیا خیال تھا کہ اقبالؒ براہِ راست الہام سے نازل شدہ اشعار میاں علی بخش سے لکھواتے رہتے تھے؟ نہیں صاحب! جو کہنا چاہتے تھے اس کے لیے مناسب الفاظ بھی لائے ہیں تبھی تو اثر پذیری کا یہ عالم ہے۔ یہ سب ارادی اور شعوری کاوش  کا ثمرہ ہے۔

 یہ تسلیم کہ خیالات کا الہامی ہونا غیر ممکن نہیں، اور کلامِ اقبال  تو سارا کا سارا ہے ہی ترجمانِ قرآن ۔ خود لکھتے ہیں:

گردلم آئینۂ بے جوہر است در بہ حرفم غیر ِ قرآں مضمر است پردۂ ناموسِ فکرم چاک کن ایں خیاباں از زخارم پاک کن روزِ محشر خوار و رسوا کن مرا بے نصیب از بوسہ ِ پا کن مرا


ترجمہ:

 اگر میرے دل کا آئینہ بےجوہر ہے، میرے کلام میں کوئی ایسی بات ہے جو قرآن کا علاوہ ہے۔

(تو اےاللہ کے رسولﷺ) میری سوچ کا پردہ چاک فرما دیں اور اپنے باغِ امت کو مجھ جیسے کانٹے سے پاک فرمالیں۔

مجھے قیامت کے دن ذلیل و رسوا فرمائیں، اپنے قدموں کے بوسے سے محروم فرما دیں۔


لیکن یہ جمع تفریق اور الفاظ کا گھٹانا بڑھانا اقبال جیسا شاعر بھی کیوں کر رہا ہے؟ کیونکہ جو جذبات آپ رکھتے ہیں، اس کی ترجمانی کے لیے الفاظ کا سہارا لینا پڑتا ہے۔ بھاؤنائیں ایسے ہی نہیں سمجھی جاتیں، کچھ الفاظ اس طرح کے لانے پڑتے ہیں کہ جو دل میں ہے وہ شعر میں سما جائے۔ یوں اپنی طرف سے پوری جان لگا لی جائے، اس کے بعد۔۔۔ جی ہاں اس کے بعد  آپ کے شعر لکھنے کے وقت کی کیفیت ان اشعار میں بے اختیار چھلک پڑتی ہے۔ پھر اپنا ہی شعر پڑھ کر اپنی آنکھیں بھیگنا کوئی تعجب کی بات نہیں ہوتی۔

(جاری)

تبصرے

شکیبؔ احمد

بلاگر | ڈیویلپر | ادیب از کامٹی، الہند

تبصرے کی زینت کے لیے ایڈیٹر استعمال کا طریقہ تفصیل

مشہور اشاعتیں

تازہ نگارشات

میری شاعری

نگہِ من - میرا فلسفہ