چمگاڈر - شکیبؔ احمد (2015ء)
"ابے شکیبی! ہاتھ آگیا۔۔۔۔کیا بات ہے!"
"کون ہاتھ آگیا؟" میں نے اُن کے ارادوں کو تولتے ہوئے احتیاطاً مابین کے فاصلے کو پرکھا۔
"ابے ایک نظم ہاتھ آئی ہے۔۔۔بس دیکھ۔۔۔آئے ہائے ہائے ہائے۔ کیا قاتل شعر مارتا ہوں میں۔ واہ میں ؔ اکبر آبادی واہ!"اُنہوں نے ران پر ہاتھ مارا۔
"ارشاد ہو عالیہ کا" میں اُن کی صنف میں لطیف ٹرانسفارمیشن کی اورسا منے بیٹھ گیا۔
"سن۔ اور سر دھن۔ نظم کا عنوان ہے "چمگاڈر""
"آہا ہاہا کیا خوب عنوان چنا ہے۔ میرا تو پیٹ بھر گیا" میں اٹھنے لگا۔
"ابے بیٹھ کھوتے دے پتر! " انہوں نے دبوچ کے بٹھادیا۔
"تو نظم کا عنوان ہے چمگاڈر۔۔۔کلام ہے میرا۔ یعنی کہ میںؔ اکبر آبادی کا۔۔۔کیا خوب کلام لکھتا ہوں میں۔ واہ واہ! سن" وہ بلند آواز کو اور بلند کرکے حلق پھاڑنے لگے۔
گھپ تھا اندھیرا
شب تھی اندھیری
بادل بھی چمکا
چمکا ہی چمکا
اور پھر وہ چمگا
ڈر نکلی گھر سے
ڈر ڈر کے چمگا
ڈر نکلی گھر سے
کالی سی چمگا
ڈر نکلی گھر سے
آہا جی نکلی
وہ دیکھو نکلی
وہ دیکھو نکلی
وہ دیکھو نکلی
وہ حلق پھاڑتے رہے۔
میں نے اپنا ایہہ لمبا پھاڑا ہوا دہانہ بند کیا، اور ان کے ساتھ ساتھ سر دھنتے ہوئے چیخنے لگا
وہ دیکھو نکلی
وہ دیکھو نکلی
میرا چیخم چنگھاڑ مشن جاری رہا۔۔۔ ساتھ ساتھ میں ہاتھ پھیلا پھیلا کر "وہ دیکھو " کا اشارہ بھی کرنے لگا۔
"ابے چپ الو دا پٹھا" وہ دہاڑے۔ اُن کا لاؤڈ سپیکر مجھ سے تیز تھا، میرا "وہ" دکھانا بند ہوگیا۔
"کیا ہوا؟" میں نے چیخنا بند کردیا۔
"ابے تو اُلو ہے؟" وہ کان میں دہاڑے۔ میرا کان سائیں سائیں کرنے لگا۔
"میں اُلو نہیں ہوں" میں جواباً اُن کے کان میں چیخا۔
"تو ہے"وہ بھی چیخے۔
"میں قرقرم خان بداخشلی اڑخسفیاضی ہوں"میں نے دانت کچکچائے، اور اتنا برا منہ بنایا کہ جارج بش بھی حیران ہوا ہوگا۔
"میں کہتا ہوں تو کیا دِکھا رہا تھا"
"چمگاڈر"
"ابے۔ تو چمگاڈر دکھا رہا تھا؟" انہوں نے تصدیق چاہی۔
"ہاں۔ میں چمگاڈر دکھا رہا تھا" میں دوبدو بولا۔
"ہی ہی ہی ہی ہی۔ وہ حلق پھاڑ کر ہنسے۔
چھاتی مسلی۔۔۔۔ پھر ہنسے۔۔۔ پھر پہلو بدل کر، ایک فائنل قہقہہ لگا کر گویا"ریزیوم "کیا۔
تو ہے ہی الّو
الو دا پٹھا
الّو ہمیشہ
الّو رہے گا
"آخر ہوا کیا؟ میں نے زچ ہوکر پوچھا۔
" ہی ہی ہی ہی۔ابے میرے خوبصورت ترین مطلع کا مصرعِ اولیٰ بھول گیا؟
"گھپ تھا اندھیرا"
۔
۔
۔
تجھے گھپ اندھیرے میں چمگاڈر نظر کیسے آئی؟ ہی ہی ہی ہی ہی!"
میں دانت کچکچا کر رہ گیا۔
٭٭٭
فقیر شکیبؔ احمد عفی عنہٗ
29 جولائی، 2015
11 بج کر 20 منٹ رات
تبصرے
ایک تبصرہ شائع کریں