اپنا من دکھیارا کیسا، اپنا حال تو ایسا ہے (غزل) - شکیبؔ احمد
اپنا من دکھیارا کیسا، اپنا حال تو ایسا ہے |
ہردے میں اک جوت جلی ہے جس نے تن من پھونکا ہے |
پریم نگر میں اک دن میں آ نکلا تھا بھولا بھٹکا |
خود کو بھول چکا ہوں تب سے جگ بھی سارا بھولا ہے |
کتنی کٹھن ہے پریم پریکشا، پریم ہوا تو کس سے ہوا |
اپنے آپ کو سب سے چھپا کے جس نے چین کو لوٹا ہے |
اس سنسار میں سب ہے تمہارا لیکن پریت کے ٹاپو پر |
تم کے وِیوگ میں جو دکھ بھوگے اس کا مزا تو میرا ہے |
صوفی ملا سنت پجاری ورد وظیفے سب کچھ ہیچ |
پریتم کے جلوے کے آگے یارو سب کچھ پھیکا ہے۱ |
میں بھی مالا پھیر رہا تھا اس اک نام کی برسوں سے |
اشکوں کی مالا پہ جپا تب نام وہ دل میں اترا ہے |
من تو بہت ہے نعت لکھوں گا پیار سے اس کو گاؤں گا |
لیکن تم نے مجھ کمبخت کو اس قابل کب سمجھا ہے۲ |
پوچھ رہا ہوں بستی بستی آنکھوں میں امید لیے |
ایک شکیب احمد ہوتا تھا تم نے اس کو دیکھا ہے |
(یکے از نگارشاتِ حرمین، 2020)
۱
حرمِ مکی میں
۲
روضۂ اقدسﷺ کے سامنے
الفاظ و معانی
ہِردے: دل، قلب | heart
پریم پریکشا: محبت کا امتحان | test of love
سنسار: دنیا، عالم | world
پریت: محبت، پیار| love
ٹاپو: جزیرہ | island
ویوگ: جدائی، فراق، ہجر| separation from beloved
دکھ بھوگنا: غم کاٹنا، تکلیف اٹھانا | to labor, to suffer
پریتم: محبوب | beloved
تبصرے
ایک تبصرہ شائع کریں