ذرا سا رخ پہ جو حزن و ملال رکھا ہے (غزل) - شکیبؔ احمد
مسلسل غزل
(یکے از نگارشاتِ حرمین، ۲۰۲۰)
ذرا سا رخ پہ جو حزن و ملال رکھا ہے |
اسے تو ہم نے بطورِ مثال رکھا ہے |
نگاہِ تشنہ فقط پوچھتی ہے آپ سے ”کب؟“ |
ہمارے پاس یہی اک سوال رکھا ہے |
کمال ہے، کہ بس اعراضِ لن ترانی سے |
ہمارے جیسے دِوانوں کو ٹال رکھا ہے |
نقابِ رخ کو الٹیے، کہ اس کی شوخی نے |
ہمیں عجیب سی الجھن میں ڈال رکھا ہے |
کبھی تو ختم بھی ہوگا یہ امتحانِ شکیبؔ |
اسی امید نے دل کو سنبھال رکھا ہے |
شکیبـؔ احمد
الفاظ و معانی
رخ: چہرہ | Face
حزن و ملال: افسوس، رنج | Sorrow
نگاہِ تشنہ: پیاسی نظر | Desirous eye
اعراضِ لن ترانی: لن ترانی (تم مجھے نہیں دیکھ سکتے! القرآن: ۷، الاعراف:۱۴۳ ) کہہ کر (اپنا دیدار کرانے سے) گریز اور اجتناب کرنا
Evasion (from showing His face) saying Lan Taraani translated "You can not see Me!", Al Quran, 7, Al-A'raaf:143
امتحانِ شکیب: صبر کا امتحان، "شکیب" کو بطور تخلص بھی برتا گیا ہے۔ | Test of patience
٭٭٭
بہت خوب
جواب دیںحذف کریںتجھے خبر نہیں کہ تیری شاعری نے شکیب
جواب دیںحذف کریںہزار لاکھوں کو الجھن میں ڈال رکھنا ہے
*اقبال ثانی*
پرڈکشن فرام حسن المبشر
قہقہقہقہہ۔ ابے یہی تو دکھڑا ہے۔ لوگوں نے اس غزل کو عشقِ مجازی کا رنگ پہنایا تو ایسا لگا تھا کہ بس منہ لپیٹ کے پڑ جاؤ، یا ابوقاسم خضری کی طرح شہر چھوڑ بیابانوں میں نکل جاؤ۔
حذف کریںویسے تو آج کل کے حالات کے آگے یہی صواب ہے۔
اور حسن المبشر کہاں سے پیدا کیا؟ بہت ”گجب“ ہے۔ 😆