افسانہ کیا ہے؟ - شکیبؔ احمد (2020ء)
Afsaana Kya Hai |
بڑے لوگ کہتے ہیں کہ افسانہ ادب کی وہ صنف ہے جس میں ایک مرکزی خیال کو لے کر اختصار کے ساتھ اس کا ابلاغ کر دیا جاتا ہے۔ لیکن ہمارے نزدیک افسانے میں خاص یہ ہے کہ وہ "بات" کنایے میں کی جاتی ہے، یہی افسانے کا حسن ہے۔
بچوں کو چیزیں مبالغہ آمیز انداز میں باقاعدہ بتیس کیمرے اور اشارے کر کر کے بتائی جاتی ہیں تاکہ انہیں سمجھ میں آئے۔ یہی وجہ ہے کہ کامکس اور کارٹونز میں کرداروں کے تاثرات کو exaggerate کر کے دکھایا جاتا ہے۔ مثلاً غصہ دکھاتے ہوئے سرخ ٹماٹر رنگ کرنے کے ساتھ آس پاس آگ اور دھواں بھی لگا دیا۔ یا سر پر چوٹ لگی تو چھ انچ کا گومٹا اگا دیا۔
پھر جیسے جیسے بچے بڑے ہوتے ہیں، ان میں ”سمجھدار“ بننے کا شوق پیدا ہوتا ہے، تب انہیں جاسوسی ناولوں کا چسکا لگتا ہے۔ پھر سوچ میں پختگی پیدا ہوتی ہے اور رومانوی ناولوں سے جی بالکل اچاٹ ہونے لگتا ہے۔ دق کر دینے والے سسپنس تھرلر کے ساتھ فلسفیانہ مباحث ،گیانی لوگوں کی کتابیں اور خشک مضامین کا شوق پال لیا جاتا ہے ۔
لڑکے لڑکی کی چونچ لڑائی سے اوپر اٹھ کر بھکمری، جنگ، سرمایہ دارانہ نظام کا شکنجہ اور حکومت کی نا اہلی کی طرف دھیان جاتا ہے۔ پھر مختلف قسم کے ازم کو چاٹا جاتا ہے اور مذاہب کی معاشرے میں ”بے جا“ دخل اندازی پر ناک بھوں چڑھائی جاتی ہے۔
بالآخر وہ وقت آتا ہے کہ آدمی کو عقیدت مند احباب ”فلاسفر“ اور منہ پھٹ لوگ ”سٹھیاؤ بڈھا“ کہہ کر بلانا شروع کر دیتے ہیں۔
بہرحال، ہم فی الحال اس مقام سے کوسوں دور ہیں۔ وہ یوں کہ بچوں کے اوٹ پٹانگ کامکس سے لے کر اخباروں کی سرخیوں میں گرامر کی غلطیاں ڈھونڈ کر اس پر خشک بحثیں کرنے تک، ہمیں سبھی دلچسپ لگتے ہیں۔
افسانہ ان دونوں انتہاؤں کے بیچ کی چیز ہے۔ فلسفی ٹائپ کے لوگوں کو بھی اچھالگتا ہے اور قصے کہانی پڑھنے والوں کو بھی۔ ہاں یہ ہے کہ مؤخر الذکر طبقے کو افسانے کا اختتام عرصے تک الجھن میں رکھتا ہے اور پھر وہ اس کا مطلب سمجھنے کے لیے اول الذکر طبقے سے رجوع کرتے ہیں۔
انتباہاً عرض ہے کہ اگر آپ بھی کسی سے رجوع کرتے ہیں تو ہوشیار رہیے۔ ہو سکتا ہے ان صاحب نے بس پطرس کا مضمون ”میبل اور میں“ پڑھ رکھا ہو۔
٭٭٭
شکیبؔ احمد
10.10.2020، دس بجے رات
تبصرے
ایک تبصرہ شائع کریں